امریکی حکام کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس بحران کی وجہ سے آن لائن کلاسز لینے والے تمام غیر ملکی طلبہ کو ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ (آئی سی ای) نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘مکمل طور پر آن لائن چلنے والے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے نان امیگرنٹ ایف -1 اور ایم -1 طلبہ مکمل آن لائن کورس کا لوڈ نہیں اٹھا سکیں گے اور وہ امریکا میں ہی رہ رہے ہیں۔ آئی سی ای کا کہنا تھا کہ ‘امریکا میں موجود طالب علم جو اس طرح کے پروگرام میں انرولڈ ہیں، کو ملک چھوڑ کر جانا ہوگا یا دیگر اقدامات کرنے ہوں گے جیسے دیگر اسکول جہاں ظاہری حیثیت میں تعلیم دی جاتی ہے تاکہ ان کی قانونی حیثیت بحال رہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر ایسا نہیں ہوا انہیں امیگریشن کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو برطرفی کی کارروائی تک محدود نہیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اسکولوں اور/یا پروگرامز میں داخلہ لینے والے طلبہ کو ویزا جاری نہیں کرے گا جو فال کے سمسٹر کے لیے مکمل طور پر آن لائن پڑھیں گے اور نہ ہی امریکی کسٹم اور بارڈر پروٹیکشن ان طلبہ کو امرییکا میں داخلے کی اجازت دے گا’۔آئی سی ای کے مطابق ایف -1 طلبہ اکیڈمک کورس ورک لیں گے اور ایم-1 طلبہ ‘ووکیشنل کورس ورک’ لیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ انفرادی اور آن لائن کلاسز کے ہائبرڈ سسٹم والی یونیورسٹیز کو یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ غیر ملکی طلبہ اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ذاتی طور پر ذاتی کلاس لے رہے ہیں۔اس فیصلے پر ناقدین نے فوری طور پر فیصلے پر تنقید شروع کردی۔سینیٹر برنی سینڈرز نے ٹوئٹ کیا کہ ‘وائٹ ہاؤس کے ظلم و ستم کی کوئی حد نہیں ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘غیر ملکی طلبہ کو دھمکی دی جارہی ہے کہ کلاس میں جاکر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالیں یا پھر ملک بدر ہوجائیں’۔امریکی دارالحکومت میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں معاشیات میں ڈاکٹریٹ کرنے والے 32 سالہ ہسپانوی طالب علم گونزو فرنینڈیز کے مطابق ‘سب سے بری چیز غیر یقینی صورتحال ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں نہیں معلوم کہ اگلے سمسٹر میں ہمیں کلاسز ملیں گی یا نہیں یا ہمیں گھر جانا چاہیے یا نہیں یا ہمیں وہ یونیورسٹی سے نکال دیں گے؟’۔
منصوبے ہوا میں ہیں ۔ بیشتر امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں نے فال سمسٹر کے لیے اپنے منصوبوں کا اعلان نہیں کیا ہے۔ متعدد اسکول انفرادی اور آن لائن تعلیم کا ہائبرڈ ماڈل دیکھ رہے ہیں لیکن چند جن میں ہارورڈ یونیورسٹی بھی شامل ہے، نے کہا ہے کہ تمام کلاسز آن لائن کروائی جائیں گی۔ہارورڈ نے کہا کہ 40 فیصد انڈرگریجویٹس کو کیمپس واپس آنے کی اجازت ہوگی لیکن انہیں تعلیم دور سے ہی دی جائے گی۔ انٹرنیشنل ایجوکیشن آف انٹرنیشنل ایجوکیشن (آئی آئی ای) کے مطابق 2018 میں تعلیمی سال کے لیے امریکا میں 10 لاکھ سے زائد بین الاقوامی طلبا تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ امریکی اعلی تعلیم میں کل طالب علموں کا 5.5 فیصد ہے اور بین الاقوامی طلبا نے 2018 میں امریکی معیشت میں 44 ارب 70 لاکھ ڈالر کا حصہ بھی ڈالا تھا۔
بین الاقوامی طلبا کی سب سے بڑی تعداد چین سے آئی تھی، اس کے بعد بھارت، جنوبی کوریا ، سعودی عرب اور کینیڈا کا نمبر آتا ہے۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک میں امریکن امیگریشن کونسل میں پالیسی مشیر کے طور پر کام کرنے والے آرون ریچلن-میلنک کے مطابق ‘اس نئے اصول کو یقینا عدالت میں چیلنج کیا جانا ہے جس کے مطابق طلبہ کو وقت کے فرق یا ٹیکنالوجی یا تعلیمی وسائل تک رسائی کی کمی کی وجہ سے بیرون ملک رہ کر اپنی تعلیم جاری رکھنی ہوگی’۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو نومبر میں اپنے دوبارہ انتخاب کے لیے مہم چلارہے ہیں، نے ملک کو دوبارہ کھولنے کے لیے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ ملک کے چند حصوں خصوصا جنوب اور مغرب میں وائرس کے کیسز میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز ٹویٹ کیا کہ ‘اسکولوں کو فال میں لازمی کھلنا ہوگا’۔