افغان يا پختون.
تحریر / مولانا خانزیب
دہ مصر په بازار کښې په ښائست باندې بولى وه
ما نوم په کښې د خپل افغان په جار اغېستۍ دې
#LarAwBarYawAfghan
افغان کیا ہے اور اس کے حوالے سے کیوں کر ہر روز کنفیوژن پھیلانے کی شعوری کوشش کی جاتی ھے
اس بات کے حوالے سے تاریخی حقائق کیا ہے ہے اور ہم پختونوں کو اپنے آپ کو کیا سمجھنا چاہیے آئے اس کا تاریخی تجزیہ کر لیتے ہیں۔
یہ بحث دراصل پچھلے سال اس ملک کے کاروبای الیکٹرانک میڈیا کے ایک گمنام چینل کے رپورٹ سے شروع ہوئی تھی جو پچھلے سال اسلام آباد میں قتل ہونی والی بچی ،فرشتہ، کے قتل کو ،معمی، بنانے کیلئے دی گئ تھی ۔
رپورٹ میں یہ جھوٹا دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ اس بچی کا باپ ،افغانی، ھے۔
اول تو یہ خبر جھوٹ پر مبنی تھی اور اگر بالفرض اسکا باپ افغانستان کا رہنا والہ بھی ہو تو کیا اس معصوم کا قتل اسکے افغانیت کی وجہ سے جائز ہوجائگا؟
اس خبر کے ذریعے پختونوں کے جذبات کو قصدا ابھارا گیا اور بہت بڑے پیمانے پر پختون نوجوانوں کی طرف سے اس چینل کا ،شعوری ، اور،ارادی،طور پر بائکاٹ بھی کیا کیا گیاجو کہ پختون نوجوانوں کی بیداری کی ایک بڑی علامت ھے۔ نسلی تعصب پر مبنی خبر چلانے والے چینلز کے لائسنس ،پیمرا، کو منسوخ کرنے چاھۓ ۔
اس خبر کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ ایسے پختون نوجوان جنکو اپنے تاریخ کا علم نہیں ھے اور جو ،پنجابی میڈیا، اور تاریخ سے سے ذھنی طور پر متاثر ہیں ،افغان، کے نام سے انکار کررہے ہیں اور یہ سب کچھ اپنے تاریخ کا مطالعہ اور علم نہ رکھ کر ان سے انجانے میں سرزد ہو رھا ہیں۔مؤرخین کے بقول پختونوں کی کرہ ارض پر موجودگی،سات ھزار،سال سے ھے ۔
انکا وطنی نام افغان اور قومی نام پختون ھے لفظ پختون کی قدامت ہزاروں سال ھے بنسبت افغان کے۔
قبل از مسیح دور کے یونانی مؤرخ، ہیروڈوٹس ،رگ وید، اویستا، وغیرہ میں ھزاروں سال پہلے لفظ پختون کا ذکر مختلف ،ترخیمات،کیساتھ آیا ھے۔
افغان بھی اس قوم کا دوسرا نام ھے جو کہ بقول ، ظفر کاکاخیل،کے پختونوں کو یہ نام انکے پڑوسیوں ،آرمینین، ،ایرانیوں، اور عرب مؤرخین کی طرف سے دیا گیا تھا جو وقت کیساتھ رفتہ رفتہ اس قوم کا دوسرا نام اور پہچان بن گیا۔
لفظ افغان ،اوغان، سے معرب ھے جو اسلامی دورہ میں مؤرخین کی طرف سے باقاعدہ طور پر پختونوں کیلئے استعمال ہوا ھے چنانچہ ابو نصر محمد العتبی تاریخ،یمنی، میں واضح طور پر یہ کہتے ہیں کہ افغان لفظ اوغان سے تعریب ہوا ھے۔
پروفیسر،احمد دانی، کے بقول لفظ،افغان ، کا ذکر پہلی دفعہ ہمیں تیسری صدی ھجری میں ساسانیوں کے عھد میں ملتا ہے۔
ھندی ھیئت دان ،ورمہ مھرہ، نے بھی لفظ ،اوگان،کا ذکر کیا ہے۔
ساتویں صدی میں چینی سیاح ،ہیوانگ سانگ، نے اس خطے میں رھنے والے لوگوں کیلئے ،اوگن، کا لفظ جو کہ ،افغان، کی تعریب شدہ شکل ھے ذکر کیا ہے۔
تیسری صدی ھجری کے حدود العالم من المشرق الی المغرب کے مصنف جو کہ دسویں صدی عیسوی میں تصنیف کی گئ ھے لفظ افغان کا ذکر ہوا ھے اسی طرح ، البیرونی، ابو القاسم فرشتہ ، ابن بطوطہ، فردوسی ،تیمورلنگ ،وغیرہ نے پختونوں کا ذکر ،افغان ،کے نام سے کیا ہے۔
افغان قوم کو ھندوستان میں ھندستانیوں نے ،پٹھان ،کا لقب دیا ،ابوالقاسم فرشتہ، کے بقول پختون جب اول اول ھندوستان آۓ تو ،پٹنہ، میں مقیم تھے جسکی نسبت سے انکو پٹھان کہا گیا۔
مگر دوسرے ،محققین، کے بقول ، پٹھان، دراصل لفظ ،پختان،سے نکلا ھے جو ھندستانیوں کی ھلکے لھجے کی وجہ سے وقت کیساتھ ھلکا ہوکے ،پختان،سے ،پٹھان، بن گیا۔
اسی طرح انکو ،روہ ، سلیمانی، کوہستانی ، بھی کہا گیا ھے۔
پختونوں سے اپنی شناخت چھینے کی ایک کوشش فرنگی کے دور میں اس صوبہ پر گورنر رھنے والے ایک اور فرنگی ادیب ،اولف کیرو، نے بھی سکندر مرزا کے کہنے پر کی تھی جس نے پختونوں کے تاریخ پر ایک بڑی ضخیم کتاب لکھی اسمیں پختونوں کو اپنے ہزاروں سالہ تاریخی وطن سے نامانوس کرنے کی کوشش کی گئ ھے اور انکو باہر کے کسی اور خطے کے قبائل کہا گیا ھے جبکہ تعصب کی انتہا کو دیکھے کہ پختونوں کو پختون یا افغان کہنے کے بجائے اسے ،پٹھان، جیسے غیر منطقی لفظ سے متعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کوشش کو ثمر آور ثابت کرنے کیلئے کتاب کا نام ،دی پٹھانز ،رکھاگیا ھے مگر وہ بھی اس تاریخی قوم کو اپنے ماضی کی تاریخ اور قومی حافظہ سے لاتعلق کرنے میں ناکام رھے ۔
بھادر شاہ ظفر کے بقول ،افغان، آرمینیائی زبان میں پہاڑوں میں رھنے والوں کو کہا جاتا ھے اور یہی پہاڑوں کی نسبت پختونوں کے وطن کیساتھ مناسب ھے۔
غنی خان کے بقول ،بگن،یا بھگوان ،ایرانیوں کے ایک معبود کا نام تھا پختون اس کے عبادت اور الوھیت سے منکر تھے جسکی وجہ سے ایرانیوں نے ان کو ،ابگان،کہا یعنی ،بگن، کے نہ ماننے والے بعد میں ،ابگان،سے یہ کلمہ ،افغان،میں تبدیل ہوا۔
اسی طرح ہندوستان پر کئ دھائیوں تک حکمرانی کرنے والے ،پختون، حکمران، جنمیں ،غلجی، سوری، لودھی، وغیرہ شامل ھے تاریخ میں انکو افغان حکمران کہا جاتا ہیں۔
1747میں جب ،احمدشاہ درانی،کو قندھار کے ،شیر سرخ ،کے زیارت میں پختونوں کے ایک لویہ جرگہ نے پختونوں کا بادشاہ منتخب کیا تو انھونے پختونوں کے وطن کو اپنے پیر میا عمر کے مشورے سے ،افغانستان،کا نام دیا ۔
اس سے پہلے اس خطے کیلئے دوسری اقوام کی طرف سےتاریخ میں خراسان کا نام بھی لیا جاتاھے
دھلی کے تخت پر بیٹھ کر احمد شاہ بابا تو اپنے وطن پختونخوا آنے کا ارمان کرتا ھے مگر وہ اس وطن پر ، پختونخوا کے بجائے،افغانستان، کا نام رکھدیتا ھے۔
د ډيلي تخت هيرووم.
چې راياد کړم د خپلې پښتونخوا د غرو سرونه.
اسکے وجوہات پر بحث پر ہونی چاہئے کیونکہ شائد یہ اسوقت کی ایک سیاسی ضرورت کے تحت کیا گیا ہو ۔
1878تک تاریخی افغانستان کے حدود ،کشمیر، اور ،اٹک،کے علاقوں تک فرنگی استعمار کے سامنے موجود تھے۔
جبکہ 1802سے 1808تک پشاور ،افغانستان، کے پختون حکمرانوں کا ،سرمائی، دارلخلافہ بھی ہوا کرتا تھا۔
1879میں ،امیر یعقوب خان،کیساتھ معاہدہ ،گندمک،اور 1893میں ،امیر عبدالرحمان،کیساتھ مقبوضہ ھندوستان کے سرحدی حدود کے حوالے سے جو معاھدے کۓ گئے جسمیں فرنگی کا مقصد اپنے حدود کے تعین کیساتھ روس کی طرف سے اپنے خلاف یلغار کا خطرہ کم کرنا تھا جس کیلئے ایک بفر زون کی شکل میں غیر فطری خلا کو تشکیل دیا گیا یہ سارے معاھدے اس خطے کے اسوقت کے جنگی صورتحال کی وجہ سے عارضی بنیادوں پر تھے افغانستان کے حکمرانوں کی ان شرمناک معاھدوں پر رضامندی اسوقت اپنے بچے کچھے حصے کو فرنگی طاقت کے شر سے محفوظ رھنے کیلئے ایک سیاسی حکمت عملی تھی جنکے خاتمے کا اعلان پھر 1949 میں افغانستان کے پارلیمان نے باقاعدہ قراداد کی شکل میں کیا۔
ان تاریخی حقائق کا خلاصہ یہ ھے کہ جس طرح
،پنجا ب، کی تقسیم آزادی کے وقت مشرقی اور جنوبی پنجاب میں ہونے کے باوجود آج بھی دونوں طرف کے پنجابی اپنے آپکو ایک پنجابی قوم کھتی ہیں مشرق وسطی میں ایک درجن ممالک میں بٹوارہ ہونے کے باوجود ایک عرب قومیت ھے شمالی اور جنوبی کوریا دو ممالک ہونے کے باوجود ایک قوم ھے مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کو پچاس سال دیوار برلن کی شکل میں تقسیم کرنے کی کوشش کے باوجود آج بھی ایک قوم ھے تو اگر پاکستان اور افغانستان میں رھنے والے پختون اپنے آپکو،افغان، کہے تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑیگی۔
افغان کا نام لیکر ہرگز کوئی یہ کنفیوژن پیدا نہ کریں کہ آپ پاکستان نہیں مان رھے یا افغانستان کے شہری بن گۓ ۔
پاکستان ایک ملک کا نام ھے قوم کا نہیں ریاستیں بنتی ٹھوٹتی رہتی ھے مگر قومیت کی حقیقت نہ ٹوٹنی والی ہوتی ھے ۔
اگر آپ ملک کو قومیت کا نام دیتے ہیں تو پھر سن 47سے آگے آپکی قومیت کیا تھی ۔
کوئی بتلائے تو ہم بتلائے!
اگر آپ افغان کےنام سے پاکستانیت کی نفی مراد لیتے ہیں تو معزرت کیساتھ اپنا مطالعہ پاکستان کی تاریخ کو تو ذرہ پڑھے۔
جسمیں مطالعہ پاکستان کے بزرجمہر
پاکستان کے لفظ میں ،پ،پنجاب، سے،س، سندھ،سے، ستان،بلوچستان، اور ،الف، افغان،سے مراد لیکر پاکستان کی ہیئت ترکیبی کو جوڑتے ہیں اگر آپ لفظ افغان کو سننے کی حدتک برداشت نہیں کررہے تو پھر ،لفظ،پاکستان، کا ،الف،افغان،کو واپس کرکے مہربانی کرکے اپنے لئے کوئی اور ،الف، ڈھونڈ لیجئے۔
اس مصنوعی وفاداری و غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کے روش کو ترک کرنا ہوگا اور اس حقیقت کی وضاحت کرنی چاھئے کہ ،غداروں، کو ہمیشہ پختونوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہیں۔
پنجاب اور سندھ میں رھنے والوں کو اپنی شناخت کیلئے ،شناختی کارڈ کی ،دستاویز کے علاوہ کیوں مزید زبانی قسمیں نہیں اٹھانی پڑتی۔
یہ حب الوطنی کی قسمیں ہروقت پختون کیوں کھائے۔
اس ملک میں جتنا کوئی اور پاکستانی ھے اتنے ہی پختون بھی ھے ۔ جبکہ بقول ولی خان اگر کوئی اس ملک کو تھوڑنے کی کوشش کریگا تو کم از کم پختون اپنے منتشر وجود اور اقتصادی مجبوریوں کی خاطر اس کا حصہ نہیں ہونگے پاکستان کا شناختی کارڈ اگر کسی پختون کے جیب میں ھے تو اس سے آگے حلف نامے اس قوم سے مزید طلب نہ کۓ جاۓ۔
اگر آپکو ذرہ فرصت ملے تو آزادی کے دور کا درست مطالعہ کریں جسمیں آپکو یہ حقائق میلنگے کہ اگر پختونوں کی جدوجھد اسوقت نہ ہوتی انکا خون اور قربانیاں نہ ہوتی تو آج شائد آپ پاکستان کے نہیں کسی اور ملک کے شہری ہوتے۔
اس تاریخی قوم کے شہریت کو مزید مشکوک بنانے اور پختونوں کو ،احساس کمتری، کا شکار کرنے والے رویوں سے اجتناب کرنا ہوگا ۔
اگر تاریخ سے سبق نہیں لیتے تو آپ تو ایک وقت میں مشرقی پاکستان میں،بنگالیوں،کے قومیت کو بھی برداشت نہیں کرتے تھے مگرانھوں دل پر پتھر رکھ کر پاکستانیت کو قبول کیا تھا لیکن اس ملک کے کرتا دھرتاؤں نے انکی بنگالیت کو قبول نہیں کیا تھا۔ کیا آج بھی تم مشرقی پاکستان کے باسیوں کو ،بنگالی،کے بجاۓ پاکستانی کہوگے؟
پختونوں کے ناموں کا تعدد اس قوم کے تاریخ اور جغرافیہ کے عظمت کی دلیل ھے نہ کہ اس تعدد کو انکے تاریخ کو مسخ کرنے کیلئے استعمال کیا جائے،
پختون انکا قومی اور افغان انکا ملی نام ھے پختون انکا اول خالص تاریخی جبکہ افغان پختون کے مترادف کے طور پر انکا دوسرا نام ھے جسمیں دیگر اقوام کی بھی آنے کی گنجائش ھے یعنی ہر پختون افغان ھے مگر ہر افغان پختون نہیں کیونکہ پختونوں کے تاریخی جغرافیہ پر انکے ساتھ دیگر بہت سی اقوام بھی موجود ہیں جنکو پختونوں نے افغانیت کے ملی نام سے اپنے اندر انتھائی عزت و احترام کے ساتھ قبول کیا ھے۔
اسی تاریخی پس منظر اور قومی شعور کی پختگی کی بنیاد پر یہ طلسماتی نعرہ بھی لگایا جاتا ھے۔
لر او بر یو افغان۔
اگر پھر بھی اگرکسی کا مصنوعی تاریخ پر عقیدہ ھے اور کسی بھی دلیل کو نہیں مان رہے تو ہم از کم اقبال لاہوری کے ان اشعار کے تاریخی پس منظر سے واقفیت حاصل کریں تو کچھ سمجھ آئیگا۔
آسیا یک پیکر آب و گل است
ملت افغان دراں پیکر دل است
در کشاد او کشاد آسیا
درفساد او فساد آسیا
دنیا کے چند ہی اقوام ایسی بڑی اقوام ہیں جنکو دنیا اپنی تاریخی عظمت کی وجہ سے دنیا ،متعدد، ناموں سے جانتی ہیں ۔
جیسے،افریقہ میں ،بربر، برطانوی، جزیرہ کے باسی، اور ، مشرقی یورپ میں بسنی والی کچھ اقوام۔
نسلی نفرتوں اور تعصبات سے پرہیز کریں یہ ایک کثیر القومی ریاست ھے اگر اس ملک کو چلانا ھے حقیقی فلاحی ریاست بنانا ھے تو تمام قومیتوں کو برابری کے نظر سے دیکھے ہر ایک کو انکے قومی حقوق اور وسائل بخوشی دیدے احساس کمتری کا شکار نہ بنے اپنے تاریخ کو پڑھے اور کسی بھی قومیت کے ،حقوق ،شناخت، و، قومیت، سے انکار مت کیجۓ ۔
سب کا بھلا ہوگا.
افغان هم يم پښتون هم يم.